لاہور کے قریب ایک ایسا قبرستان بھی ہے جہاں صرف لاوارث اور نامعلوم افراد کی میتیں دفن کی جاتی ہیں، فیض پور کے قریب واقع دو ایکڑ رقبے پرمشتمل اس قبرستان میں اب تک 1400 سے ??ائد لاوارث میتوں کی تدفین کی جاچکی ہے، جن میں نومولود بچوں سے لیکر 90 سال کی عمر تک کے افراد کی میتیں شامل ہیں۔
کئی بدنصیب ایسے ??ھی ہوتے ہیں جنہیں مرنے کے بعد ان کے اپنے گا??ں اور شہر کے قبرستان میں آخری آرام گاہ کے لئے دو گز زمین بھی نصیب نہیں ہوتی، ایسی میتوں کی تدفین اکبر صفہ ویلفیئر سوسائٹی نامی ایک این جی او،ایدھی فاؤنڈیشن اور پولیس کی معاونت سے ??ررہی ہے، لاہور اورشیخوپورہ کے سنگم میں فیض پور کے قریب چارکنال رقبے پرمشتمل ??برستان میں لاوارثوں کی قبریں ہیں۔
این جی او کے سربراہ ملک اکبرعلی نے ایکسپریس نیوز کو بت??یا کہ اکتوبر 2022 میں جب ملتان کے نشتر اسپتال کی چھت پر انسانی لاشیں ملنے کا واقعہ پیش آیا تو وہ لرز گئے تھے، انسانی لاشوں کی بے حرمتی اور بے توقیری کے اس واقعہ نے انہیں جھنجھوڑ کررکھ دیا۔ انہوں نے اس وقت کے آئی جی پولیس سے ??ابطہ کیا اور ان سے ??رخواست کی کہ لاوارث میتیں ان کے حوالے کی جائیں تاکہ ان کو بے حرمتی سے ??چ??یا جائے اور پورے احترام اورمذہبی طریقے سے ??ن کی تدفین کی جاسکے۔
ملک اکبرعلی کے مطابق دوایکڑ رقبے پر مشتمل اس قبرستان میں اب تک 1400 سے ??ائد لاوارث اور نامعلوم لاشوں کی تدفین کی جاچکی ہے جن میں ایک دن کے نومولود بچوں سے لے کر 90 سال کی عمر تک افراد کی میتیں بھی شامل ہیں، وہ ان لاوارث میتوں کے وارث بنتے ہیں۔
یہ لاشیں ہرمنگل کے روز لاہور کے مردہ خانوں سے یہاں لائی جاتی ہیں۔ اس منگل کو بھی 8 میتیوں کی تدفین کی گئی جن میں ایک نومولود بچی کی میت بھی شامل تھی، ایک دن کی بچی کی نعش نشتر پولیس کو نہر سے ملی تھی ۔ پولیس کے مطابق کسی سنگ دل خاتون نے اپنا گناہ چھپانے کے لئے اس بچی کو نہرکنارے پھینک دیا تھا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کی مدد سے مردہ خانوں سے میتیں قبرستان پہنچائی جاتی ہیں جہاں این جی او کے نمائندے، پولیس اہل کار اجتماعی نمازجنازہ پڑھتے ہیں اور پھر ان کی تدفین کردی جاتی ہے۔ یہاں دفن کی جانیوالی ہرمیت کو ایک نمبرالاٹ کیا جاتا ہے۔ان کی قبروں کی شناخت ان نمبروں سے ہی کی جاتی ہے۔
لاوارث لاشوں کی تدفین کے لئے آنے والے ایک پولیس اسسٹنٹ سب انسپکٹر محمداخلاق نے بت??یا کہ پولیس کو جب کوئی لاوارث لاش ملتی ہےتو سب سے پہلے اس کے ورثا کی تلاش شروع کی جاتی ہے، تمام تھانوں سے معلوم کیا جاتا ہےجہاں کسی لاپتا شخص سےمتعلق کوئی رپورٹ درج کروائی گئی ہو، اس کےبعد اشتہار شائع کرو??یا جاتا ہے۔
اس سے ??ھی اگر کوئی وارث نہیں ملتا تو ڈیڈباڈی کےہاتھوں کے پرنٹ لیکرنادرا کےپاس بھیجے جاتےہیں جس سے ??عض اوقات کسی لاوارث میت کی شناخت ہوجاتی ہے لیکن اگر ہاتھوں کے پرنٹ سے ??یدباڈی کی شناخت میں کوئی مدد نہیں ملتی تو پھر اس ڈیڈباڈی کا پوسٹ مارٹم کرو??یا جاتا ہے اور دوہفتوں سے 20 دن کے اندر اس ڈیڈباڈی کو امانتاً دفنا دیا جاتا ہے۔
ان لاوارث میتوں کو مردہ خانوں سے ??یدھی فاؤنڈیشن کی گاڑیاں غسل اورکفن پہنانے کے بعد قبرستان لیکر آتی ہیں جہاں اجتماعی نمازجنازہ ادا کرکےان کی تدفین کردی جاتی ہے۔
لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں چند برس پہلے لاوارث لاشوں کی تدفین کے لئےایک احاطہ مقررتھا جسےختم کردیا گیا۔ شہر کے کسی بھی چھوٹے،بڑے قبرستان میں لاوارث لاشوں کو دفنانے کے لئے جگہ دی جاتی ہے اور نہ ہی مقامی لوگ اس کی اجازت دیتے ہیں۔
ملک اکبرعلی کہتے ہیں حکومت کواس بارے سوچنا چاہیے ،نادرا کے پاس ہرشہری کا ڈیٹا موجود ہے ان میتوں کی شناخت کے لئے ہاتھوں کے پرنٹ لے کرنادرا کو بھیجے جاتے ہیں جو ان کے ذریعے شناخت کی کوشش کرتا ہے، اس عمل ??یں بعض اوقات دوسے ??ین ہفتےاور کبھی ایک ماہ سے ??ھی زیادہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔
حکومت اگر ان میتیوں کی شناخت کے لئے بایومیٹرک کا طریقہ کار اختیار کرے تو اس سے ??ن کی شناخت میں آسانی ہوگی اور ان کے ورثا کوتلاش کیا جاسکے گا۔ اس سے ناصرف ان کی تدفین ورثا اپنے علاقوں میں کریں گے بلکہ ان کا اپنے پیارے کی واپسی کا انتظار بھی ختم ہوجائے گا۔